والذین ................ الدین (07 : 62) ” جو روز جزاء کو برحق مانتے ہیں “۔ یہ صفت تو اس سورت کے محور سے براہ راست متعلق ہے ، کیونکہ سورت کا محور اور موضوع قیامت ہے۔ لیکن یہاں ان آیات میں ایک مومن کی نفسیاتی حالت سے بحث ہے۔ قیامت کی تصدیق ایمانیات کا اہم حصہ ہے اور کسی نظام زندگی کی تشکیل میں اس کا شعوری اور عملی اثر ہوتا ہے کیونکہ جو شخص قیامت کی تصدیق کرتا ہے اس کی قدریں اور پیمانے اور ہوتے ہیں اور جو قیامت کی تصدیق نہیں کرتا اس کے بارے میں شک میں ہوتا ہے ، اس کی قدریں بالکل جدا ہوتی ہیں ، چاہے ان کا تعلق نظریات سے ہو یا اعمال سے ہو یا زندگی کے اہم حادثات سے ہو۔
قیامت پر یقین رکھنے والا آسمانوں (خدا) کے میزان اور نظام کے مطابق کام کرتا ہے۔ وہ آخرت کے حساب و کتاب کے لئے تیاری کرتا ہے۔ صرف دنیا پر نظریں مرکوز نہیں کرتا۔ اور اسے زندگی میں جن حادثات اور جن واقعات سے دو چار ہونا پڑے خواہ اچھے ہوں یا برے ، اس کے بارے میں اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کے عارضی حالات ہیں ، اصل جہاں تو اور ہے۔ لہٰذا وہ اپنی قیامت کو درست کرتا ہے اور جو آخرت کی تکذیب کرتا ہے اس کا سب کچھ اسی دنیا کے لئے ہوتا ہے۔
اگر وہ یہاں کسی چیز سے محروم ہوگیا تو اس کے نزدیک گویا وہ سب چیزوں سے محروم ہوگیا۔ کیونکہ اس کی تمام سرگرمیاں اس جہاں کے لئے ہوتی ہیں۔ چناچہ اس کے حساب و کتاب کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں ایک غلط نتیجے تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس محدود دنیا کے مختصر وقت کے اندر محدود کردیتا ہے۔ چناچہ یہ بدبخت ، مسکین ، ہر وقت عذاب میں مبتلا اور قلق میں گرفتار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا کے بارے میں اس کے تمام اندازے غلط ہوتے ہیں۔ وہ کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہوتا۔ کبھی عادلانہ اور منصفانہ فیصلے نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اس کے فیصلے دنیا کے محدود دائرے میں محدود ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ خود بھی پریشان ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی پریشان کرتا ہے۔ آزردہ دل آزردہ کمند الجمنے را .... غرض وہ اس دنیا میں بھی کوئی اعلیٰ اقدار پر مشتمل زندگی نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں یوم الاخرت پر یقین کو اسلامی نظریہ حیات کا جز بنایا گیا ہے۔