Unasoma tafsir kwa kundi la aya 100:1 hadi 100:5
والعاديات ضبحا ١ فالموريات قدحا ٢ فالمغيرات صبحا ٣ فاثرن به نقعا ٤ فوسطن به جمعا ٥
وَٱلْعَـٰدِيَـٰتِ ضَبْحًۭا ١ فَٱلْمُورِيَـٰتِ قَدْحًۭا ٢ فَٱلْمُغِيرَٰتِ صُبْحًۭا ٣ فَأَثَرْنَ بِهِۦ نَقْعًۭا ٤ فَوَسَطْنَ بِهِۦ جَمْعًا ٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اللہ تعالیٰ یہاں سواروں کے دستے کی قسم اٹھاتے ہیں۔ ان کی ایک ایک جنگی حرکت کو ترتیب کے ساتھ لایا جاتا ہے۔ جب یہ دستہ اپنے حملے کا آغاز کرتا ہے اور تیز رفتاری کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ گھوڑے پھنکارمارتے آگے جارہے ہیں۔ یہ اپنے سموں سے پتھروں سے چنگاڑیاں نکالتے جاتے ہیں۔ پھر عین صبح کے وقت یہ دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، یہ حملہ نہایت سرعت کے ساتھ ہوتا ہے اور اچانک ہوتا ہے۔ حملہ کے وقت گھوڑوں کی بھگدڑ سے غبار اڑتا ہے۔ کیونکہ دشمن حملے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اس کی حرکات غیر مرتب ہیں ، جب یہ دستہ دشمن کی صفوں میں خلاف توقع جاگھستا ہے تو سخت انتشار و اضطراب برپا ہوجاتا ہے۔

یہ کسی بھی حملہ کے وہ پے درپے اقدامات ہیں جن سے عرب خوف واقف تھے۔ اس قسم کے دستے اور گھوڑوں کی حرکات کی قسم کھانے کا مطلب یہی ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے معرکے بہت محبوب ہیں ، یہ اللہ کو بھی محبوب ہیں ، اللہ ایسی حرکات کو اچھی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ پسندیدہ قدریں ہیں۔

پھر ، یہ مناظر اور جنگی ایکشن ان معانی سے زیادہ ہم آہنگ ہیں جن پر یہاں قسم اٹھائی جارہی ہے ، جیسا کہ ہم نے تبصرے میں وضاحت کی۔ جس مفہوم اور معنی پر قسم اٹھائی جارہی ہے۔ یہ انسان کی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور یہ انسان کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب انسان نفسیات ایمان سے خالی ہوں۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے تاکہ لوگ اس کے خلاف جدوجہد کریں ۔ اس لئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسانی نفسیات کے اندر یہ بیماری کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ اور انسانی شخصیت پر اس کے کتنے اثرات ہوا کرتے ہیں۔