Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 37:103 a 37:104
فلما اسلما وتله للجبين ١٠٣ وناديناه ان يا ابراهيم ١٠٤
فَلَمَّآ أَسْلَمَا وَتَلَّهُۥ لِلْجَبِينِ ١٠٣ وَنَـٰدَيْنَـٰهُ أَن يَـٰٓإِبْرَٰهِيمُ ١٠٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ستجدنی ان شآء اللہ من الصبرین (37: 102) ” اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے “۔

ورنہ نہیں۔ کیا شان ہے اللہ کے جناب میں عاجزی کی۔ اور کس قدر روشن ایمان ہے کس قدر عالی شان اطاعت اور بےمثال تسلیم و رضا ہے یہ ! باتوں سے آگے اب اس منظر میں واقعات ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔ اب صرف مکالمہ نہیں ہے عمل شروع ہو رہا ہے

فلما اسلما وتلہ للجبین (103) ” “۔ ایک بار پھر یہاں اطاعت سر بلند ہوتی ہے اور عظمت ایمان کا اظہار ہوتا ہے اور تسلیم و رضا کی وہ مثال سامنے آتی ہے جو پوری انسانی تاریخ کا ایک جلی عنوان ہے۔ ایک انسان اپنے اکلوتے بیٹے کو منہ کے بل گراتا ہے تاکہ اسے ذبح کے لیے تیار کرلے۔ اور وہ لڑکا بھی سر تسلیم خم کرتا ہے اور بےحس و حرکت گر جاتا ہے۔ بات اب عمل تک آپہنچی ہے اور قریب ہے کہ چھری چل جائے۔

باپ بیٹے دونوں نے سر تسلیم خم کردیا ہے۔ یہی ہے اسلام۔ اسلام میں تسلیم و رضا ہی اصل حقیقت ہے۔ اعتماد ، طاعت ، اطمینان اور تسلیم و رضا ، دونوں کے جذبات ، نظریات اور عمل یکساں ہیں۔ نفاذ امر کے لیے تیار ہیں۔ اس قسم کی تیاری کہ تنفیذ کے لیے بس ایک کش کی ضرورت ہے اور یہ کام ایک عظیم ایمان ہی کرسکتا ہے۔

یہ جرات اور جسارت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ جوش اور بہادری کا معاملہ نہیں ہے۔ بعض اوقات میدان کا رزار میں ایک مجاہد پر جوش انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ قتل کرتا ہے اور قتل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک فدائی اقدام کرتا ہے اور اسے علم بھی ہوتا ہے کہ وہ زندہ نہ بچے گا لیکن وہ جذبہ فداکاری سے سرشار ہوتا ہے اور یہ ایک انداز ہوتا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل جو کچھ کر رہے ہیں اس کی ادا بالکل نرالی ہے۔ یہاں کوئی خونی جوش نہیں ہے۔ نہ جذبہ حمایت کار فرما ہے ۔ نہ عجلت پسندانہ جوش ہے جس کی تہہ میں خوف و ہراس کو چھپایا جاتا ہے۔ کمزوری اور بزدلی کو نعروں میں لپیٹ لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ ایسی تسلیم و رضا ہے جو معاملے کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کی جا رہی ہے۔ عقلمندی کے ساتھ ایک کام ہو رہا ہے۔ قصد و ارادے اور سوچ و فکر کے بعد ہو رہا ہے۔ پورے مشورے اور بحث و مباحثے کے بعد۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، اطمینان کے ساتھ کہ نتائج کیا ہوں گے۔ ٹھنڈی رضا مندی ، خوشی خوشی سے اللہ کا جذبہ اطاعت کام کر رہا ہے۔

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے حق ادا کردیا۔ تسلیم و رضا کا اظہار ہوگیا۔ امر الٰہی کو وہ روبعمل لے ہی آئے۔ فرض پورا کردیا۔ بس چھری کی ایک کش ہی باقی رہ گئی تھی۔ خون کی ایک دھار ہی باقی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی روح کی پرداز ہو چکنی باقی تھی۔ اللہ کے ہاں اس روح کی کوئی زیادہ اہمیت نہ تھی۔ اللہ کے پیمانے میں وزن کسی اور چیز کا تھا جو ہوچکا۔ دونوں نے عزم و ارادہ اس میزان میں رکھ دیا تھا۔ رب جانتا تھا کہ ان کے شعور کی حالت کیا ہے ، ان کا جذبہ کیا ہے۔

یہ ایک امتحان تھا جو ہوچکا۔ اس میں وہ فتح یاب ہوگئے۔ نتائج سامنے آگئے۔ مقصد امتحان پورا ہوگیا جو بات رہ گئی وہ صرف یہ تھی کہ کوئی تڑپ جائے۔ خون بہہ جائے۔ ذبیح کا جسم ٹھنڈا ہوجائے۔ لیکن اللہ بندگی و اطاعت چاہتا ہے۔ عبادت کے معنی اسلام میں ابتلا اور تعذیب نہیں۔ اللہ خون اور جسموں کو گرانا نہیں چاہتا۔ جب خلوص کا اظہار ہوگیا۔ بندہ اس مشکل حکم کی تعیل کے لیے تیار ہوگیا۔ اپنے دل و جان سے تیار ہوگیا تو فرض ادا ہوگیا اور امتحان میں وہ کامیاب ہوگیا۔

اللہ جانتا تھا کہ ابراہیم اور اسماعیل دونوں سچے ہیں۔ اس لیے اللہ نے ان کی تیاری ہی کو عمل سمجھا۔