یہ منافقین اصحاب مال و اولاد تھے لیکن یہ جہاد کو ناپسند کرتے تھے اور بڑے با اثر لوگ تھے۔ لیکن اللہ کے نزدیک مال و دولت اور جاہ و شرف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہذا رسول اور اہل ایمان کے نزدیک بھی مال و دولت اور جاہ و شرف کی کوئی اہمیت نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ چیزیں اللہ کے ایسے انعامات نہیں ہیں کہ وہ ان کے ذریعے مزے لوٹتے رہیں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو بلکہ یہ تو ایک فتنہ اور آزمائش ہے۔ اس پر ان سے باز پرس ہوگی اور ان کو سزا ہوگی۔
مال و اولاد کبھی ایک نعمت ہوتے ہیں اور اس سے اللہ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو نوازتے ہیں اور پھر اسے توفیق دیتے ہیں کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرے۔ اور اپنی اس قوت کو اصلاح فی الارض کے لی استعمال کرے۔ اس کے ذریعے اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اس طرح اس کا ضمیر مطمئن ہو۔ اس کے نفس میں سکون و اطمینان ہو اور اسے اپنے انجام ، اچھے انجام کا پورا پورا یقین ہو۔ اور اس کا طرز عمل ایسا ہو کہ وہ نہایت اخلاص کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرتا ہو اور آخرت کے لیے توشہ جمع کرتا ہو اور جب اسے مالی یا جانی نقصان ہو تو بھی وہ اسے اللہ کی طرف سے سمجھتے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے اور یہی مال و اولاد کبھی اللہ کی جانب سے سزا ہوتے ہیں اور ہی سزا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ چناچہ یہ اموال اور اولاد اس کے لیے موجب قلق اور اذیت ہوتے ہیں اور اس قلق اور پریشانیوں کی وجہ سے وہ جہنم میں ہوتا ہے اور زیادہ مال و دولت کو مزید بڑھانے کے لیے اس کی راتوں کی نیند ختم ہوجاتی ہے اور وہ اعصابی طور پر شل ہوجاتا ہے۔ اب اسے انفاق مال اتلاف مال کے برابر نظر آتا ہے۔ اگر اس کی اولاد بیمار ہو تو بھی وہ کڑھتا ہے اور اگر اولاد تندرست ہو تب بھی اس کے لیے باعث اذیت ہوتی ہے۔ بیشمار ایسے لوگ موجود ہیں کہ ان کے لی خود ان کی اولاد وبال جان ہوتی ہے۔
اس قسم کے لوگ رسول اللہ کے دور میں موجود تھے۔ اب بھی یہ موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ان کے پاس دولت ہوگی ، ان کی اولاد ہوگی ، لوگ ان کی ظاہری پوزیش کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوں گے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ ان کے لیے عذاب ہوگا ، اس دنیا میں عذاب اور ان کے اندرون اور انجام سے چونکہ اللہ خوب واقف ہے ، اس لیے وہ جہنم کے لیے پا بہ رکاب ہوتے ہیں۔ پس حالت کفر پر ان کی موت کی دیر ہوتی ہے۔ جان دیتے ہی وہ جہنم رسید ہوجاتے ہیں۔
قرآن کا انداز تعبیر و تزھق انفسہم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لوگ نفسیاتی طور پر فراڈ اور ہلاکت کی حالت میں ہیں۔ ان کی حالت کچھ اس طرح ہے کہ وہ سکون ، ٹھہراؤ اور اطمینان کی دولت سے محروم ہیں۔ لہذا جس طرح وہ آخرت میں سخت عذاب میں ہوں گے ، اسی طرح یہ دنیا بھی ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہے۔ تو گویا دنیا میں وہ آخرت میں سخت عذاب میں ہوں گے ، اسی طرح یہ دنیا بھی ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہے۔ تو گویا دنیا و آخرت دنوں میں وہ عذاب میں ہوں گے۔ اور اس قسم کے مال و دولت اور اسی اولاد کی ، ظاہر ہے کہ کوئی معقول شخص خواہش مند نہ ہوگا جس کے اندر عذاب ہی عذاب پوشیدہ ہو۔