Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 5:101 hingga 5:105
يا ايها الذين امنوا لا تسالوا عن اشياء ان تبد لكم تسوكم وان تسالوا عنها حين ينزل القران تبد لكم عفا الله عنها والله غفور حليم ١٠١ قد سالها قوم من قبلكم ثم اصبحوا بها كافرين ١٠٢ ما جعل الله من بحيرة ولا سايبة ولا وصيلة ولا حام ولاكن الذين كفروا يفترون على الله الكذب واكثرهم لا يعقلون ١٠٣ واذا قيل لهم تعالوا الى ما انزل الله والى الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا عليه اباءنا اولو كان اباوهم لا يعلمون شييا ولا يهتدون ١٠٤ يا ايها الذين امنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ضل اذا اهتديتم الى الله مرجعكم جميعا فينبيكم بما كنتم تعملون ١٠٥
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَسْـَٔلُوا۟ عَنْ أَشْيَآءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْـَٔلُوا۟ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ ٱلْقُرْءَانُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا ٱللَّهُ عَنْهَا ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌۭ ١٠١ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌۭ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا۟ بِهَا كَـٰفِرِينَ ١٠٢ مَا جَعَلَ ٱللَّهُ مِنۢ بَحِيرَةٍۢ وَلَا سَآئِبَةٍۢ وَلَا وَصِيلَةٍۢ وَلَا حَامٍۢ ۙ وَلَـٰكِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ١٠٣ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُوا۟ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ ۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْـًۭٔا وَلَا يَهْتَدُونَ ١٠٤ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا ٱهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًۭا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ١٠٥
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
لَا
تَسْـَٔلُوْا
عَنْ
اَشْیَآءَ
اِنْ
تُبْدَ
لَكُمْ
تَسُؤْكُمْ ۚ
وَاِنْ
تَسْـَٔلُوْا
عَنْهَا
حِیْنَ
یُنَزَّلُ
الْقُرْاٰنُ
تُبْدَ
لَكُمْ ؕ
عَفَا
اللّٰهُ
عَنْهَا ؕ
وَاللّٰهُ
غَفُوْرٌ
حَلِیْمٌ
۟
قَدْ
سَاَلَهَا
قَوْمٌ
مِّنْ
قَبْلِكُمْ
ثُمَّ
اَصْبَحُوْا
بِهَا
كٰفِرِیْنَ
۟
مَا
جَعَلَ
اللّٰهُ
مِنْ
بَحِیْرَةٍ
وَّلَا
سَآىِٕبَةٍ
وَّلَا
وَصِیْلَةٍ
وَّلَا
حَامٍ ۙ
وَّلٰكِنَّ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
یَفْتَرُوْنَ
عَلَی
اللّٰهِ
الْكَذِبَ ؕ
وَاَكْثَرُهُمْ
لَا
یَعْقِلُوْنَ
۟
وَاِذَا
قِیْلَ
لَهُمْ
تَعَالَوْا
اِلٰی
مَاۤ
اَنْزَلَ
اللّٰهُ
وَاِلَی
الرَّسُوْلِ
قَالُوْا
حَسْبُنَا
مَا
وَجَدْنَا
عَلَیْهِ
اٰبَآءَنَا ؕ
اَوَلَوْ
كَانَ
اٰبَآؤُهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
شَیْـًٔا
وَّلَا
یَهْتَدُوْنَ
۟
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
عَلَیْكُمْ
اَنْفُسَكُمْ ۚ
لَا
یَضُرُّكُمْ
مَّنْ
ضَلَّ
اِذَا
اهْتَدَیْتُمْ ؕ
اِلَی
اللّٰهِ
مَرْجِعُكُمْ
جَمِیْعًا
فَیُنَبِّئُكُمْ
بِمَا
كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ
۟
3

روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 )

غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔

کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔