وقال اني ذاهب الى ربي سيهدين ٩٩
وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ ٩٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
۳

آیت 99{ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ } ”اور اب اس نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ‘ وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔“ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی یا رسول کے قتل پر آمادہ ہوجائے تو پھر وہ نبی یا رسول مزید اس قوم کے درمیان نہیں رہتے۔ آپ علیہ السلام کی قوم نے تو آپ علیہ السلام کے قتل کی صرف منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی بلکہ آپ علیہ السلام کو بالفعل آگ میں ڈال دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے آپ علیہ السلام کو معجزانہ طور پر بچا لیا۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی اپنے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنایا اور آپ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی جب محمد رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا اور آپ ﷺ کو قتل کرنے کے لیے جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پیغمبر ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچا دیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت تک آپ علیہ السلام کو شاید ہجرت کی منزل کے بارے میں معلوم نہیں تھا ‘ اس لیے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا پروردگار خود میری راہنمائی فرمائے گا کہ مجھے کدھر جانا ہے۔ چناچہ آپ علیہ السلام نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی ‘ جس کے لیے آپ علیہ السلام کو بہت لمبا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ عراق ‘ شام اور فلسطین کے درمیان شرق اردن کا پورا علاقہ لق و دق صحرا پر مشتمل ہے ‘ جسے عبور کرنا بالکل ناممکن تھا۔ چناچہ آپ علیہ السلام دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے اوپر شام کے شمالی علاقے ”باران“ پہنچے اور وہاں سے نیچے فلسطین کے علاقے میں داخل ہوئے۔