You are reading a tafsir for the group of verses 37:85 to 37:87
اذ قال لابيه وقومه ماذا تعبدون ٨٥ ايفكا الهة دون الله تريدون ٨٦ فما ظنكم برب العالمين ٨٧
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦ مَاذَا تَعْبُدُونَ ٨٥ أَئِفْكًا ءَالِهَةًۭ دُونَ ٱللَّهِ تُرِيدُونَ ٨٦ فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ٨٧
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اذ قال ۔۔۔۔ برب العلمین (37: 84 – 87) ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا۔ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کر رہے ہو۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر جھوٹ گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو۔ آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے “۔ حجرت دیکھ رہے تھے کہ وہ بتوں اور آستھانوں کو پوجتے تھے۔ چناچہ وہ اپنی فطرت سلیمہ کی رد سے ان پر شدید گرفت کرتے ہیں کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ؟

ماذا تعبدون (37: 84) ” یہ کیا ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو “۔ یعنی یہ کیا چیزیں ہیں ؟ یہ تو اس قابل ہرگز نہیں کہ ان کی بندگی کی جائے یا کوئی ان کا بندہ ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان ان کے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ یہ تو محض گھڑے ہوئے ہیں ، افتراء ہیں اور ان کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ ان جھوٹے خداؤں کی بندگی کرکے تم عمداً افتراء باندھتے ہو۔

ائفکا الھۃ دون اللہ تریدون (37: 86) ” جھوٹ گھڑے ہوئے معبود تم چاہتے ہو “۔ یہ تمہارا اللہ کے بارے میں کیا تصور ہے۔ تمہار تصور الہ اس قدر گرا ہوا ہے کہ انسانی فطرت سلیمہ پہلی نظر ہی میں اس کا انکار کردیتی ہے۔

فما ظنکم برب العلمین (37: 87) ” آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟ “ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سلیمہ ایسے امر کا پہلی ہی نظر میں انکار کردیتی ہے جو عقل و ضمیر کے خلاف ہو اور انسانی عقل اور شعور اس کا انکار کرتے ہوں۔ اب سیاق کلام میں ان کی جانب سے کسی جواب کا تذکرہ نہیں ہے ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ازروئے فطرت سلیمہ اور قلب سلیم جس نتیجے تک پہنچے اگلی کڑی میں وہ بتا دیا جاتا ہے کیونکہ ان کی قوم کھوکھلے من گھڑت عقائد پر تھی۔