70:24 70:25 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
والذين في اموالهم حق معلوم ٢٤ للسايل والمحروم ٢٥
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّۭ مَّعْلُومٌۭ ٢٤ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ٢٥
وَالَّذِیْنَ
فِیْۤ
اَمْوَالِهِمْ
حَقٌّ
مَّعْلُوْمٌ
۟
لِّلسَّآىِٕلِ
وَالْمَحْرُوْمِ
۟

والذین .................... والمحروم (52) (07 : 42۔ 52) ” جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے “۔ یعنی وہ صدقات جو معلوم اور متعین ہیں ، وہ مومنین کے اموال میں غرباء کا حق ہیں اور ” حق معلوم “ کا اس سے بھی زیادہ جامع مفہوم یہ ہے کہ وہ خود اپنے اموال میں ایک متعین حق مساکین کے لئے مقرر کرتے ہیں اور وہ اپنے جذبہ سے کہتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔ اس طرح وہ بخل اور کنجوسی کے جذبہ پر قابو پاتے ہیں۔ اور اسی طرح یہ شعور ابھرتا ہے کہ اہل معاشرہ پر ناداروں کے حوالے سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ خصوصاً اسلامی امت تو باہم متکافل امت ہے۔ سائل وہ ہے جو سوال کرتا ہے اور محرم ونادار جو سوال نہیں کرتا۔ اور اپنی ضرورت کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کرتا ، یوں وہ محروم رہتا ہے۔ یا محروم وہ شخص ہے جس پر کوئی مصیبت آئی ہو اور اسے نعمتوں سے محروم کردیا گیا ہو اور اس نے سوال کرنے سے اجتناب کیا ہو۔ یہ شعور کہ محتاجوں اور محروم لوگوں کا بھی دولت میں حصہ ہے ایک زاویہ سے تو اللہ کے فضل کا شعور ہے اور دوسری جانب سے انسانی اخوت کا شعور ہے جبکہ نفسیاتی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بخل اور کنجوسی کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور یہ ایک اجتماعی ضمانت میں بھی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے مالی حقوق ادا کرنے میں بہت فائدے ہیں۔ غرض زکوٰة وصدقات میں نفسانی ، ذاتی اور معاشرتی فائدے ہیں۔ اور یہاں اس کا ذکر انسان کے نفسیاتی علاج کے حوالے سے ہے۔