وقال اني ذاهب الى ربي سيهدين ٩٩
وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ ٩٩
وَقَالَ
اِنِّیْ
ذَاهِبٌ
اِلٰی
رَبِّیْ
سَیَهْدِیْنِ
۟

وقال انی۔۔۔۔ سیھدین (99) ” “ میں رب کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں۔ یعنی مسافاتی ہجرت سے قبل یہ نفسیاتی اور نظریاتی ہجرت ہے۔ ایک ایسی ہجرت جس میں وہ اپنی تمام ماضی اور آبائی مقام کو خیر آبار کہہ رہے ہیں۔ اپنے باپ اور قوم کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان تمام روابط کو کاٹ رہے ہیں جو انسان کو اس زمین سے وابستہ کردیتے ہیں۔ ان لوگوں سے وابستہ کردیتے ہیں ، تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام مصروفیتوں کو ختم کر رہے ہیں۔ تمام بوجھ ہلکے کرکے اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ تمام چیزوں کو پش پشت ڈال رہے ہیں۔ اپنی پوری ذات کو رب کے سپرد کر رہے ہیں۔ اور اپنی ذات کا کوئی حصہ اپنے لیے نہیں رکھ رہے ہیں انہیں یقین ہے کہ ان کا رب ضرور انہیں ہدایت دے گا۔ ان کی مدد کرے گا اور سیدھی راہ سجھائے گا۔

یہ ایک مکمل ہجرت ہے بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف مکمل انتقال ہے۔ تمام روابط کو کاٹ کر صرف ایک رب سے جڑنا ، یہ گویا نہایت ہی یکسوئی ، تجرد ، خلوص اور سرتسلیم خم کردینے کا اقدام ہے۔ پورے اطمینان اور پورے یقین کے ساتھ۔ حضرت ابراہیم اس وقت تک اکیلے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ پیچھے وہ جو کچھ چھوڑ رہے تھے وہ اقرباء اور رشتہ داری کے تعلقات تھے۔ ہر قسم کی دوستی اور آشنائی کو ترک کر رہے تھے ۔ ماضی کے تمام مالوفات اور عادات کو ترک کر رہے تھے۔ ان تمام روابط کو کاٹ رہے تھے جو جنم بھوی سے قائم ہوجایا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور ان کے اہل کے درمیان پائے جانے والے تمام روابط کٹ گئے جنہوں نے ان کو آگ میں ڈالنے کا اقدام کیا۔ اس لیے آپ نے اس عزم کا ارادہ کرلیا کہ اب میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں اور چونکہ اہل و ابالی رہ گئی اس لیے رشتہ داروں کی جگہ اولاد اور جانشیں کے طلبگار ہوئے۔