فلما بلغ معہ ۔۔۔۔۔۔ من الصبرین (102) “۔
یا اللہ ، کیا عظیم ایمان ہے اور تسلیم و رضا کا کیا اعلیٰ مقام ہے۔ یہ ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک بوڑھے ، اپنے اقرباء اور رشتہ داروں سے دور ، اپنے ملک اور وطن سے دور۔ ان کو بڑھاپے اور کبر سنی میں ایک بیٹا عطا ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصہ تک انہوں نے اس بچے کا انتظار فرمایا۔ جب اللہ ان کو یہ ممتاز اور ذی صلاحیت بیٹا دیا اور ان کے مرتبہ و مقام کی شہادت دی۔ وہ ابھی ان کے ساتھ اچھی طرح مانوس بھی نہیں ہوا ، ابھی بچہ ہے۔ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے لگا ہے اور قریب ہے کہ اب وہ زندگی کا ساتھی بن جائے۔ غرض ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بچے سے امیدیں وابستہ ہی ہوئی تھیں کہ وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ اس بچے کو ذبح کر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اشارہ ہے کہ اس بچے کی قربانی دے دو ۔ اب کیا ہوتا ہے ؟ آپ بالکل تردد نہیں کرتے۔ آپ کو کوئی شک اور خلجان نہیں ہوتا۔ بس جذبہ اطاعت ہی سامنے آتا ہے۔ آپ تسلیم امر ربی پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اشارہ تھا۔ یہ امر صریح نہ تھا ، نہ براہ راست وحی آئی تھی۔ لیکن آپ نے رب کی طرف سے اشارہ ہی کو کافی سمجھا۔ آپ کے لیے تو اشارہ ہی کافی تھا۔ آپ نے لبیک کہہ دیا۔ اور تعمیل پر آمادہ ہوگئے بغیر کسی اعتراض کے ، بغیر کسی سوال کے کہ اے اللہ میں اپنے واحد بیٹے کو کیوں ذبح کر دوں۔
حضرت ابراہیم جزع و فزع کی حالت میں لبیک نہیں کہتے۔ نہ ان پر کوئی اضطرابی کیفیت طاری ہوتی ہے ، بلکہ وہ تسلیم و رضا کے پیکر ہیں ، مطمئن اور پر وقار ہیں اور ان کا یہ اطمینان ، ٹھہراؤ اور تسلیم و رضا ان کے ان کلمات سے ظاہر ہوتی ہے جن میں وہ یہ تجویز اپنے بیٹے کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ تو نہایت ہی عظیم اقدام ہے لیکن ان کے الفاظ نہایت سنجیدہ اور ان کی روش پر وقار ہے۔
قال یبنی انی۔۔۔۔ ماذا تری (37: 102) ” ابراہیم نے اس سے کہا ” بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ “ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جن کو اپنے اعصاب پر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے۔ وہ درپیش اہم معاملے کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہے۔ اسے یقین ہے اور وہ اس پر تلا ہوا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کرے گا۔ یہ ایک مومن کے الفاظ ہیں ایسے مومن کے جسے یہ عظیم امر خوفزدہ نہیں کر رہا ہے تاکہ وہ جلدی جلدی اسے کر گزرے۔ آنکھیں بند کرکے تاکہ وہ اس سے بچ جائے اور یہ معاملہ ختم ہوجائے اور اس کے اعصاب پر جو قابل برداشت بوجھ آپڑا ہے وہ اتر جائے۔ ایسا نہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ فعل ناقابل برداشت ضرور ہے۔ مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو کسی معرکہ کا رزار میں بھیج دیں۔ نہ حکم یہ ہے کہ اسے ایک ایسے کام میں لگا دیں جس سے اس کی زندگی ختم ہوجائے ۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کردیں۔ اور یہ حکم انہیں اس طرح خواب میں ملتا ہے ۔ اور آپ اسے اپنے اکلوتے بیٹے کے سامنے رکھتے ہیں۔ اور اس سے
یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر غور کرے اور اپنی رائے دے۔
نیز حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو اچانک پکڑ کر ایسی حالت میں ذبح نہیں کردیتے کہ انہیں پتہ ہی نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے اور معاملہ ختم کردیا جائے۔ بلکہ معاملہ تجویز کی صورت میں ان کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) محسوس کرتے ہیں کہ ان کے رب کی مرضی ہی ایسی ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو اس طرح سر انجام دینا چاہئے جس طرح رب کی مرضی ہے۔ رب کا حکم سر آنکھوں پر ۔ لہٰذا بچے کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کیا درپیش ہے اور وہ بھی اس حکم کھے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ کوئی جبر اور کوئی اضطرار نہ ہوتا کہ اس کو بھی اطاعت امر کا اجر ملے۔ وہ بھی تسلیم و رضا کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور اطاعت امر کے مٹھاس کو پالے۔ ذرا ان کے اکلوتے بھی جان سپردگی کی لذت چکھ لیں اور وہ بھی وہ بھلائی دیکھ لیں جو زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ وارفع ہے اب بیٹے کا فیصلہ کیا ہے ؟ کہ اس کے باپ نے خواب دیکھا ہے اور باپ خواب بیٹے کے سامنے رکھتے ہیں اور تجویز یہ ہے کہ بیٹے کو ذبح کردیا جائے ، فیصلہ کیا ہے ؟ بیٹا بھی آخر حضرت ابراہیم کا بیٹا ہے۔ وہ بھی اس مقام بلند پر پہنچ چکے ہیں جس پر حضرت ابراہیم ہیں۔
قال یابت افعل۔۔۔۔ من الصبرین (37: 102) ” اس نے کہا ، ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے “۔ حضرت اساعیل بھی اس حکم کے سامنے صرف سر تسلیم خم نہیں کردیتے بلکہ وہ نہایت اعتماد اور رضائے الٰہی سے سرشار ہو کر تسلیم کرتے ہیں۔ یا ابت ابا جان ، نہایت ہی محبت اور نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ۔ وہ ذبح ہونے جا رہے ہیں لیکن ان پر کوئی خوف نہیں ہے ، کوئی جزع و فزع نہیں ہے۔ ان کے حواس بحال ہیں بلکہ ادب اور محبت میں بھی کوئی کمی نہیں آتی ہے۔
افعل ما تومر (37: 102) ” آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل فرمائیں “۔ حضرت اسماعیل کا احساس بھی وہی ہے۔ جو اس سے قبل آپ کے باپ کا تھا۔ بیٹا بھی یہ سمجھا ہے کہ باپ کو ذبح عظیم کا اشارہ مل گیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے اشارہ بھی امر ربی ہے اور ایک جلیل القدر پیغمبر کیلئے یہ اشارہ ہی کافی ہے کہ وہ بغیر کسی تردد ، بغیر کسی شک اور بغیر کسی بہانہ سازی کے عمل کریں۔
بارگاہ رب العزت میں نہایت ادب کے ساتھ بات ہو رہی ہے۔ بات کرنے و الے کو اپنی قوت کے حدود کا اچھی طرح علم ہے اور اپنی قوت برداشت کا بھی علم ہے۔ اسے اپنی کمزوریوں کا علم ہے۔ اس لیے اللہ کی معاونت طلب کی جاتی ہے۔ اس لیے اس قربانی اور اطاعت شعاری کی نسبت بھی اللہ کی مشیت کی طرف کی جاتی ہے۔
ستجدنی انشاء اللہ من الصبرین (37: 102) ” آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے “۔ یہ بیٹے اپنی بہادری کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ نہ جسورانہ اور تہورانہ بات کرتے ہیں۔ نہ لاپرواہی سے دوڑ کر خطرے میں کودتے ہیں ۔ وہ اپنی شخصیت کا کوئی رنگ یہاں نہیں دکھاتے۔ نہ اپنا حجم اور نہ اپنا وزن جتاتے ہیں۔ تمام معاملے کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں ۔ کہ اللہ نے جو قربانی طلب کی ہے اگر اللہ کی معاونت شامل حال رہی اور اس نے صبر عطا کردیا تو یہ کام ہوجائے گا۔