بل كذبوا بالحق لما جاءهم فهم في امر مريج ٥
بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِىٓ أَمْرٍۢ مَّرِيجٍ ٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

اس کے بعد ان کی شخصیت کا تجزیہ کر کے بتایا جاتا ہے اور وہ اصل سبب بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ وہی اعتراضات وہ کرتے ہیں یہ کہ انہوں نے سچائی کا مضبوط پلیٹ فارم چھوڑ دیا ہے ، ان کے پاؤں کے نیچے زمین ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کسی موقف پر جم ہی نہیں سکتے۔

بل کذبوا بالحق لما جاءھم فھم فی امر مریج (50 : 5) “ بلکہ ان لوگوں نے تو جس وقت حق ان کے پاس آیا اسی وقت اسے صاف جھٹلا دیا۔ اسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں “۔

یہ بھی ایک نہایت منفرد انداز تعبیر ہے۔ جو لوگ مستقل سچائی کو ترک کرتے ہیں تو پھر ان کے قدم کسی جگہ نہیں جم سکتے۔

سچائی ایک ایسا نقطہ ہے جس پر وہ شخص قائم ہوتا ہے جو سچائی پر ایمان لاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں ہوتی ۔ اس روش میں اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے قدموں کے نیچے زمین مضبوط ہوتی ہے۔ اس میں کوئی زلزلہ نہیں آتا اور نہ اس کا کوئی حصہ زمین میں دھنستا ہے جبکہ اس کے ماحول کے دوسرے افراد ڈانواں ڈول ، مضطرب ، بےثبات اور دولت یقین سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ ان میں کوئی مضبوط کردار ہوتا ہے اور نہ وہ مشکلات برداشت کرسکتے ہیں۔ جس نے بھی حق سے تجاوز کرلیا اور ادھر ادھر ہوگیا ، وہ پھسل گیا۔ اور ثبات وقرار سے محروم ہوگیا۔ اور اسے کبھی اطمینان نہ ہوگا۔ وہ ہر وقت شک ، پریشانی اور بےچینی میں مبتلا رے گا۔

پھر جو شخص سچائی کو چھوڑ دے تو ہر طرف سے خواہشات نفس کی آندھیاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ میلانات و خواہشات ، بدلتی ہوئی خواہشات ، اسے کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتیں ۔ حیران و پریشان ، افتاں و خیزاں کبھی ادھر دوڑتا ہے ، کبھی ادھر بھاگتا ہے۔ جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں مطمئن نہیں ہوتا۔ پاگلوں کی طرح کبھی دائیں ، کبھی بائیں ، کبھی آگے کبھی پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جائے امن وقرار نہیں ہوتی۔

یہ ایک عجیب انداز بیان ہے کہ وہ ” امر مریج “ میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایسی حالت میں جس میں الجھن ہو اور وہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو اور دائمی خلجان میں گرفتار ہو۔ انداز بیان ایسا ہے کہ ایسے شخص کی اندرونی کیفیات کو اس کی حرکات ظاہر کر رہی ہیں اور لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔