بل ظننتم ان لن ينقلب الرسول والمومنون الى اهليهم ابدا وزين ذالك في قلوبكم وظننتم ظن السوء وكنتم قوما بورا ١٢
بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ ٱلرَّسُولُ وَٱلْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰٓ أَهْلِيهِمْ أَبَدًۭا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِى قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًۢا بُورًۭا ١٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 12 { بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓی اَہْلِیْہِمْ اَبَدًا } ”بلکہ تم لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اب رسول اور اہل ِایمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے“ تمہارا خیال تھا کہ ان لوگوں کا دماغ چل گیا ہے جو خود چل کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یہ کہ قریش ِ مکہ انہیں جیتے جی کبھی واپس نہیں آنے دیں گے۔ { وَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ } ”اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برا گمان کیا۔“ { وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا } ”اور تم ہو ہی تباہ ہونے والے لوگ۔“ اس سے پہلے سورة محمد میں منافقین کے جس طرز عمل کا ذکر ہوا تھا وہ 2 ہجری کا دور تھا جبکہ ابھی قتال کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ اس دور میں وہ لوگ ”اقدام“ سے متعلق حضور ﷺ کی حکمت عملی کے مقابلے میں صلح جوئی اور امن پسندی کی باتیں کرتے تھے۔ اب ان آیات میں ان کی 6 ہجری کے زمانے کی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔